A king had seven daughters. One day, the king was very happy and called his seven daughters and asked that I will ask all of you a question and if the answer is good, I will give you a reward. All stand in a row and tell one by one whose day you eat. Whose dia do you wear? Six of the seven daughters said, Father Huzur, we eat your daya and wear your daya, because of you we have this glory.
The king was very happy to hear that it was Shaukat and gave everyone what he liked. When the youngest daughter’s turn came, she said, “I eat Allah’s gift and wear my destiny and this is my destiny.” When the king heard this, he became furious and said, “O poor man, you have been ungrateful to me. You will surely be punished for it.” How can she eat Allah’s gift and wear her fortune without me? All the jewels were taken back from the princess and she was left alone in the forest in dilapidated clothes without any equipment according to the order of the king. But the princess was very I was calm and satisfied and I trusted Allah that what He had written for me in terms of sustenance and luxury, I definitely got it.
All the soldiers will leave the princess and go back. The princess started looking at the forest, there were trees all around and it was going to be afternoon to evening, so the princess thought why not collect some wood to light a fire at night, then there are no wild animals around. It will come and the night will pass. The princess went looking for wood in the forest. She saw a hut where a goat was locked outside and the sound of coughing was coming from inside. At first, the princess was very surprised that the hut was in such a deserted place. When she enters the hut, what she sees is an old weak man lying on a cot and coughing, coughing, water, crying for water. She fills the water and feeds the weak.
And she cleans the hut. Meanwhile, the old man asks the poor princess, “Who are you, daughter?” And what are you doing alone in such a big forest? Then the princess tells him how she got here. The old weak man tells him to stay in the hut and says that I work in the city, I will go to the city in the morning and come back after eight days. You stay here and there is food in the hut and the river is nearby. To fill the pitcher. In the morning, the poor old man goes to the city and the princess cleans everything here in the hut alone and milks the goat. He will take the hat.
And she herself goes inside and sleeps. Early in the morning, when the princess wakes up, she sees that the milk pot is empty and a red one is lying next to it, which looks very rare and precious. Then the princess remembers that in her childhood she heard that when a rare snake is very happy, it emits a red color that is worth more than diamonds. The princess is very surprised and thinks to herself that Perhaps the snake was hungry. So he drank the milk and left the red in happiness, then she picked up the red and kept it with her. And then the next night, the princess put the milk in the pot and the next morning when she saw it, there was a red in it for seven days. They pass by and the princess collects seven reds and on that day the old poor man also comes, then the princess sees him red and tells the whole incident and gives three reds to the old poor man and says that he will go to the city and get these reds. Sell it and bring the palace builders with you when you come.
The remaining four reds are worn by the princess as a garland around her neck and within a few months a magnificent palace is prepared in the forest in which the old man and the princess live. All the blessings are available. The princess sets up a wood factory in the forest, in which the poor work and their bread continues. When this news reaches the king, the king has a longing in his heart that he wants to see the princess of which country she is so admired. The king sends a message to the soldiers to meet the princess. So the princess orders that King Salamat can meet us on one condition that he comes with all his sons. The soldiers go and give a message to the king. One day, the king with all his sons goes to the palace of the princess.
The grandeur and beauty of the palace and the style of the princess surprise and impress the king and all the other princesses. Finally, the king tells the princess you are in my daughter’s place and I am also with all my sons at your request. I have come, then why this veil from us, the princess says very insistently, ok, I come ready. In the meantime, he sees that someone is coming from a distance in shabby clothes, and upon reflection, the king remembers that this
ایک بادشاہ کی سات بیٹیاں تھی ایک دن بادشاہ بہت خوش ہوتا ہے اور اپنی ساتوں بیٹیوں کو بلا کر پوچھتا ہے کہ میں تم سب سے ایک سوال پوچھوں گا اور اگر جواب اچھا لگا تو تمہارا من چاہا انعام بھی دوں گا ۔ سب ایک قطار میں کھڑی ہو جاو اور ایک ایک کر کے بتاو کہ تم کس کا دیا کھاتی ہو ؟ کس کا دیا پہنتی ہو ؟ سات میں سے چھ بیٹیوں نے کہا ابا حضور آپ کا دیا کھاتے ہیں اور آپ کا دیا پہنتے ہیں آپ ہی کی وجہ سے ہماری یہ شان
شوکت ہے یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور سب کو اس کی من پسند چیز دے دی۔ جب سب سے چھوٹی بیٹی کی باری آئی تو اس نے کہا کہ میں اللہ کا دیا کھاتی ہوں اور اپنی قسمت کا پہنتی ہوں اور یہ میرا نصیب ہے ۔ بادشاہ یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا اے کمبخت تو نے میری ناشکری کی ہے تجھے اس کی سزا ضرور ملی گئی شہزادی نے کہا جو حکم ابا حضور بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جاو اسے جنگل میں چھوڑ آو میں بھی دیکھوں کہ یہ میرے بغیر کیسے اللہ کا دیا کھاتی ہے اور اپنے نصیب کا پہنتی ہے شہزادی سے تمام زیورات واپس لے لیے گیے اور خستہ حال کپڑوں میں بغیر کسی ساز و سامان کے بادشاہ کے حکم۔کے مطابق جنگل میں تنہا چھوڑ دیا گیا ۔لیکن شہزادی بہت پرسکون مطمئن تھی اور توکل اللہ تھی کہ جو اس نے رزق اور عیش و عشرت میرے نصیب لکھی ہے وہ مجھے ضرور ملے گئی۔
سب سپاہی شہزادی کو چھوڑ کر واپس چلے گے ۔شہزادی جنگل کو دیکھنے لگی چاروں طرف درخت ہی درخت تھے اور دوپہر سے شام ہونی والی تھی کہ شہزادی نے سوچا کیوں نہ کچھ لکڑیاں جمع کر لو تاکہ رات کو آگ جلاو پھر کوئی جنگلی جانور پاس نہیں آئے گا ۔اور رات بھی گزر جائے گی۔ شہزادی جنگل میں لکڑیاں ڈھونڈے چل پڑی ۔اس کی نظر ایک جھونپڑی پر پڑی جہاں باہر ایک بکری بندی ہوئی تھی اور اندر سے کھانسے کی آواز آ رہی تھی پہلے تو شہزادی بہت حیران ہوئی کہ اتنی ویران جگہ پر جھونپڑی ؟ جب وہ جھونپڑی کے اندر داخل ہوتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بوڑھا ضیعف ایک چارپائی پر لیٹا ہے اور کھانستے ، کھانستے پانی ، پانی پکار کر رہا ہے شہزادی ادھر ُادھر دیکھتی ہے تو کونے میں ایک پانی کا گھڑا پڑا ہوتا ہے وہ گلاس میں پانی بھر کر بوڑھے ضعیف کو پلاتی ہے ۔
اور جھونپڑی کی صاف صفائی کرتی ہے اتنے میں بوڑھا ضعیف شہزادی سے پوچھتا ہے کہ بیٹی تم کون ہو؟ اور اتنے بڑے جنگل میں تم اکیلی کیا کر رہی ہو ؟ تب شہزادی اسے بتاتی ہے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی ۔ بوڑھا ضعیف اسے جھونپڑی میں ہی رکنے کا بولتا ہے اور کہتا ہے کہ میں شہر میں کام کرتا ہوں صبح شہر چلا جاؤں گا اور آٹھ دن کے بعد آؤ گا تم یہی رہو اور جھونپڑی میں کھانے کا سامان ہے اور ندی پاس ہی ہے تم وہاں سے گھڑا بھر لیا کرنا ۔ صبح کو بوڑھا ضعیف شہر چلا جاتا یے اور شہزادی یہاں اکیلی جھونپڑی میں سب صفائی کر کے بکری کا دودھ نکلاتی ہے آدھا اپنے لیے رکھ لیتی ہے اور آدھا باہر ایک کونے میں برتن میں ڈال کر رکھ دیتی ہے کہ رات کو کوئی جانور بھوکا یا پیاسا ہو گا توپی لے گا ۔
اور خود اندر آ کر سو جاتی ہے صبح سویرائے جب شہزادی اٹھتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ دودھ کا برتن خالی اور پاس ایک لال پڑا ہے جو دیکھنے میں بہت ہی نایاب اور قیمتی معلوم ہوتا ہے اور پاس ہی سانپ کے نشان بھی نظر آتے ہیں تب شہزادی کو یاد آتا ہے کہ بچپن میں اس نے سنا تھا کہ جب کوئی نایاب سانپ بہت خوش ہوتا ہے تو ایک ایسا لال اگلتا ہے کہ جس کی قیمت ہیرے جواہرات سے بھی مہنگی ہوتی ہے شہزادی بہت حیران ہوتی ہے اور دل میں سوچتی ہے کہ شاید سانپ بھوکا تھا۔ اس لیے وہ دودھ پی کر خوشی میں لال چھوڑ گیا پھر وہ لال اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیتی ہے ۔اور پھر اگلی رات شہزادی برتن میں دودھ رکھ دیتی ہے اور اگلی صبح جب دیکھتی ہے تو پھر ایک لال ہوتا ہے ایسے ہی کرتے سات دن گزر جاتے ہیں اور شہزادی کے پاس سات لال جمع ہو جاتے ہیں اور اس دن بوڑھا ضعیف بھی آ جاتا ہے تب شہزادی اسے لال دیکھاتی ہے اور سارا واقع بتاتی ہے اور بوڑھے ضعیف کو تین لال دیتی ہے اور کہتی ہے کہ شہر جا کر یہ لال بیچ دو اور آتے وقت اپنے ساتھ محل بنانے والے مزدور لے کر آنا ۔
باقی چار لال شہزادی اپنے گلے میں مالا کے طور پر پہن لیتی ہے اور کچھ ہی مہینوں میں جنگل میں ایک عالی شان محل تیار ہو جاتا ہے جس میں بوڑھا ضعیف اور شہزادی رہنے لگتے ہیں ایسا خوبصورت محل جس میں ہر آرائش نوکر چاکر ، دنیا کی تمام نعمتیں ماجود ہوتی ہے شہزادی جنگل میں لکاڑئ کی فیکٹری لگا دیتی ہے جس میں غریب کام کرتے ہیں اور ان کے روٹی بھی چلتی رہتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل شہر نما بن جاتا ہے اور دور دور تک دھوم مچ جاتی ہے کہ شہزادی بہت رحم دل ہےیہ خبر ایسے ہی بادشاہ تک پہنچتی ہے تو بادشاہ کے دل میں اشتیاق ہوتا ہے کہ دیکھو تو سہی کون سے ملک کی شہزادی ہے جس کی اتنی تعریف ہے بادشاہ سپاہیوں کے ہاتھ پیغام بھجتا ہے شہزادی سے ملنے یہاں شہزادی کے سپاہی جب شہزادی کو بتاتے ہیں تو شہزادی یہ حکم دیتی ہے کہ بادشاہ سلامت ایک کی شرط پر ہم۔سے مل سکتے ہیں کہ وہ اپنی تمام بیٹوں کے ساتھ آئے۔ سپاہی جا کر بادشاہ کو پیغام دے دیتے ہیں ۔ ایک دن بادشاہ اپنی تمام بیٹوں کے ساتھ شہزادی کے محل جاتا ہے شہزادی ان سب سے ملتی ہے چہرے پر نقاب کر کے اور ان کے لیے سات رنگ کے کھانے پیش کرتی ہے اور ہر کھانے کے ساتھ اسی رنگ کا جوڑا زیورات پہن کر آتی ہے ۔
محل کی شان و شوکت خوبصورتی اور شہزادی کا انداز بادشاہ اور باقی تمام شہزادیوں کو بہت حیران اور متاثر کرتا ہے آخر میں بادشاہ شہزادی سے کہہ ہی دیتا ہے کہ تم میری بیٹی کی جگہ پر ہو اور میں بھی تمہارے کہنے پر اپنی تمام بیٹوں کے ساتھ آیا ہوں پھر ہم سے یہ پردہ کس لیے بہت اصرار پر شہزادی کہتی ہے ٹھیک ہے میں تیار ہو کر آتی ہوں ۔سب شہزادیاں آپس میں سرگوشی کرنے لگتی ہے کہ اتنی تو تیار ہے اتنے مہنگے زیورات پہنے ہے اب اور کتنا تیار ہو کر آئی گئی اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دور سے ایک خستہ حال کپڑوں میں کوئی آ رہا ہے اور غور کرنے پر بادشاہ کو یاد آتا ہے کہ یہ